Dr Ali Shariati
"علی شریعتی اور تنہائی"
ممتاز ایرانی مفکر، انقلابی دانشور ڈاکٹر علی شریعتی سے، جو صرف چوالیس برس جیے (1933 تا 1977ء)، ہم سب کم یاز یادہ آگاہ ہیں۔ انھوں نے فرانس میں تعلیم حاصل کی۔ الجزائر کی جنگ کے مجاہدین سے ملاقات کی تھی۔ قید کا سامنا بھی کیا۔ ایرخ فرام اور سارتر کی تحریروں سے استفادہ بھی کیا اور مغربی جدیدیت کے ضمن میں سخت مئوقف بھی اپنایا۔ ان کا ایک مختصر خطبہ "علیؑ اور تنہائی" کے عنوان سے ہے۔ ہم اردو ادیب تنہائی اور بیگانگی پرمارکسیوں اور وجودیوں کی تحریروں کا اکثر حوالہ دیتے ہیں اوراس میں اصولی طور پر کوئی قباحت بھی نہیں، مگر جسے ہم دنیا کہتے ہیں، وہ کسی ایک خطے تک محدود تو بہ ہر حال نہیں ہے اور جسے ہم علم کہتے ہیں وہ کسی ایک مخصوص روایت کا پابند نہیں ہے۔ اس لیے ہمیں دوسرے خطوں، علوم کی دوسری روایتوں کی طرف نگاہ بھی کرتے رہنا چاہیے۔
علی شریعتی کے اس خطبے کا آخری حصہ ، تنہائی کوسمجھنے کا ایک نیا زاویہ فراہم کرتا ہے۔ اس حصے میں وہ سوال اٹھاتے ہیں کہ دنیا میں کون تنہا نہیں ہے؟ پھر خود ہی جواب دیتے ہیں کہ وہ شخص تنہا نہیں ہے جو سب کے ساتھ ہے۔ یعنی سب کی سطحِ فکر میں مساوی ہے؛ سب کے انداز میں سوچتا ہےاور سب کے انداز سے دیکھتا ہے اور سب کو خوش کرنے کی کوشش کرتا ہے--- وہ دنیا میں اجنبی اور تنہا ہونے کا احساس نہیں کرتا ۔کیوں؟ کہ وہ سب کی طرح ہے، ان ہی میں سے ایک ہے۔ وہ ان ہی کے ساتھ ہے ۔ دوسروں کے دکھ اور مصیبت کو محسوس کرنا، ان سے ہم دلی محسوس کرنا ایک بات ہے (اور یہ ہم دلی اس وقت بھی محسوس کی جاسکتی ہے، جب آپ مصیبت زدوں سے بالکل مختلف انداز میں سوچتے ہوں) اور دوسروں کی مانند سوچنا بالکل دوسری بات ہے۔ ہماری رائے میں یہ خود فریبی کی صورت ہے۔ کوئی واقعی سوچنے والا شخص ، دوسروں کی مانند نہیں، ہوبہو نہیں سوچ سکتا ۔ یا تو وہ دوسروں کی مانند سوچنے کی اداکاری کرتا ہے یا پھر سوچنے کی علت کا خاتمہ کرچکا ہوتا ہے اور محض دوسروں کے خیالات کو احکام سمجھ کر ان پرعمل پیر اہوتا ہے۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ وہ اس طور اپنی زندگی آسان بنالیتا ہے۔ ان بہت سی ذمہ داریوں سے بچ جاتا ہےجو خود سوچنے کا لازمی نتیجہ ہیں، ان میں ایک نتیجہ ، ایک وقت میں یقین کی گئی باتوں اور مثالی سمجھے گئے اشخاص سے مایوسی بھی ہے۔ سب کو خوش کرنے کی کوشش بزدل ہی کرتے ہیں اور بزدلی میں کیا گیا کوئی عمل ، اخلاقی اہمیت کا حامل کیسے ہوسکتا ہے!
نیزشریعتی کے مطابق آدمی جیسے جیسے "انسان " ہونے لگتا ہے ، یعنی خود سوچنے لگتا ہے، چیزوں کو اپنی نظر سے مگر پوری دیانت داری سے دیکھنے لگتا ہے، اسے اپنی تنہائی کا زیادہ احساس ہونے لگتا ہے۔ دور کے سب سفر تنہا کیے جاتے ہیں۔ اکثر خود سوچنے والوں کے ہمراہ ، آنے والے کل کے ان دیکھے لوگوں کا ایک کارواں ہوتا ہے۔ عام طور پرلوگ راست فکر والوں کا نہیں، صاحب منصب کا ساتھ دیتے آئے ہیں۔ تنہائی رلا دینے والی ہے، بڑے سے بڑے آدمی کو۔ مگر بڑا آدمی کب روتا ہے؟ شیر دن میں نہیں روتا کہ اسے لومڑیاں ، گیدڑ، بھیڑیے روتے ہوئے نہ دیکھیں ۔ وہ رات کو روتا ہے۔ کسی صحرائی کنویں میں منھ دے کر !
ایک صحرائی کنواں ہم سب کے اندر بھی ہوتا ہے!!
Comments
Post a Comment