Encounter Moses AS

Al-Qasas (The Narration) 28:15
وَدَخَلَ الْمَدِينَةَ عَلَى حِينِ غَفْلَةٍ مِّنْ أَهْلِهَا فَوَجَدَ فِيهَا رَجُلَيْنِ يَقْتَتِلَانِ هَذَا مِن شِيعَتِهِ وَهَذَا مِنْ عَدُوِّهِ فَاسْتَغَاثَهُ الَّذِي مِن شِيعَتِهِ عَلَى الَّذِي مِنْ عَدُوِّهِ فَوَكَزَهُ مُوسَى فَقَضَى عَلَيْهِ قَالَ هَذَا مِنْ عَمَلِ الشَّيْطَانِ إِنَّهُ عَدُوٌّ مُّضِلٌّ مُّبِينٌ
And [one day] he entered the city at a time when [most of] its people were [resting in their houses] unaware of what was going on [in the streets]; and there he encountered two men fighting with one another - one of his own people, and the other of his enemies. And the one who belonged to his own people cried out to him for help against him who was of his enemies - whereupon Moses struck him down with his fist, and [thus] brought about his end. [But then] he said [to himself]: This is of Satan doing! Verily, he is an open foe, leading [man] astray!

And he entered the city at a time of unawareness of its people, and he found there two men fighting, - one of his party (his religion - from the Children of Israel), and the other of his foes. The man of his (own) party asked him for help against his foe, so Mûsa (Moses) struck him with his fist and killed him. He said: "This is of Shaitân's (Satan) doing, verily, he is a plain misleading enemy." (15) 

قَالَ رَبِّ إِنِّى ظَلَمۡتُ نَفۡسِى فَٱغۡفِرۡ لِى فَغَفَرَ لَهُ ۥۤ‌ۚ إِنَّهُ ۥ هُوَ ٱلۡغَفُورُ ٱلرَّحِيمُ (١٦) قَالَ رَبِّ بِمَآ أَنۡعَمۡتَ عَلَىَّ فَلَنۡ أَكُونَ ظَهِيرً۬ا لِّلۡمُجۡرِمِينَ (١٧) فَأَصۡبَحَ فِى ٱلۡمَدِينَةِ خَآٮِٕفً۬ا يَتَرَقَّبُ فَإِذَا ٱلَّذِى ٱسۡتَنصَرَهُ ۥ بِٱلۡأَمۡسِ يَسۡتَصۡرِخُهُ ۥ‌ۚ قَالَ لَهُ ۥ مُوسَىٰٓ إِنَّكَ لَغَوِىٌّ۬ مُّبِينٌ۬ (١٨) فَلَمَّآ أَنۡ أَرَادَ أَن يَبۡطِشَ بِٱلَّذِى هُوَ عَدُوٌّ۬ لَّهُمَا قَالَ يَـٰمُوسَىٰٓ أَتُرِيدُ أَن تَقۡتُلَنِى كَمَا قَتَلۡتَ نَفۡسَۢا بِٱلۡأَمۡسِ‌ۖ إِن تُرِيدُ إِلَّآ أَن تَكُونَ جَبَّارً۬ا فِى ٱلۡأَرۡضِ وَمَا تُرِيدُ أَن تَكُونَ مِنَ ٱلۡمُصۡلِحِينَ (١٩) وَجَآءَ رَجُلٌ۬ مِّنۡ أَقۡصَا ٱلۡمَدِينَةِ يَسۡعَىٰ قَالَ يَـٰمُوسَىٰٓ إِنَّ ٱلۡمَلَأَ يَأۡتَمِرُونَ بِكَ لِيَقۡتُلُوكَ فَٱخۡرُجۡ إِنِّى لَكَ مِنَ ٱلنَّـٰصِحِينَ (٢٠) فَخَرَجَ مِنۡہَا خَآٮِٕفً۬ا يَتَرَقَّبُ‌ۖ قَالَ رَبِّ نَجِّنِى مِنَ ٱلۡقَوۡمِ ٱلظَّـٰلِمِينَ (٢١)

He said: "My Lord! Verily, I have wronged myself, so forgive me." Then He forgave him. Verily, He is the Oft-Forgiving, the Most Merciful. (16) He said: "My Lord! For that with which You have favoured me, I will never more be a helper of the Mujrimûn (criminals, disbelievers polytheists, sinners)!" (17) So he became afraid, looking about in the city (waiting as to what will be the result of his crime of killing), when behold, the man who had sought his help the day before, called for his help (again). Mûsa (Moses) said to him: "Verily, you are a plain misleader!" (18) Then when he decided to seize the man who was an enemy to both of them, the man said: "O Mûsa (Moses)! Is it your intention to kill me as you killed a man yesterday? Your aim is nothing but to become a tyrant in the land, and not to be one of those who do right." (19) And there came a man running, from the farthest end of the city. He said: "O Mûsa (Moses)! Verily, the chiefs are taking counsel together about you, to kill you, so escape.Truly, I am one of the good advisers to you." (20) So he escaped from there, looking about in a state of fear. He said: "My Lord! Save me from the people who are Zâlimûn (polytheists and wrong-doers)!" (21)

اور شہر میں لوگوں کی بے خبری کے وقت داخل ہوا پھر وہاں دو شخصوں کو لڑتے ہوئے پایا یہ ایک اس کی جماعت کا تھااوریہ دوسرا اس کے دشمنوں میں سے تھا پھر اس نے جو اس کی جماعت کا تھا اپنے دشمن پر اس سے مدد چاہی تب موسیٰ نے اس پر مکا مارا پس اس کا کام تمام کر دیا کہا یہ تو شیطانی حرکت ہے بے شک وہ کھلا دشمن اور گمراہ کرنے والا ہے (۱۵) کہا اے میرے رب! بے شک میں نے اپنی جان پر ظلم کیا سو مجھے بخش دے پھر اسے بخش دیا بے شک وہ بخشنے والا مہربان ہے (۱۶) کہا اے میرے رب! جیسا تو نے مجھ پر فضل کیا ہے پھر میں گناہگاروں کا کبھی مددگار نہیں ہوں گا (۱۷) پھر شہر میں ڈرتا انتظار کرتا ہوا صبح کو گیا پھر وہی شخص جس نے کل اس سے مدد مانگی تھی اسے پکار رہا ہے موسیٰ نے اس سے کہا کہ بے شک تو صریح گمراہ ہے (۱۸) پھر جب ارادہ کیا کہ اس پر ہاتھ ڈالے جو ان دونوں کا دشمن تھا کہا اے موسیٰ! کیا تو چاہتا ہے کہ مجھے مار ڈالے جیسا تو نے کل ایک آدمی کو مار ڈالا ہے تو یہی چاہتا ہے کہ ملک میں زبردستی کرتا پھرے اور تو نہیں چاہتا کہ اصلاح کرنے والوں میں سے ہو (۱۹) اور شہر کے پرلے سرے سے ایک آدمی دوڑتا ہوا آیا کہا اے موسیٰ! دریا والے ترے متعلق مشورہ کرتے ہیں کہ تجھ کو مار ڈالیں سو نکل بے شک میں تیرا بھلا چاہنے والا ہوں (۲۰) پھر وہاں سے ڈرتا انتظار کرتا ہوا نکلا کہا اے میرے رب! مجھے ظالم قوم سے بچا لے (۲۱)

Parting Between Me and You
قَالَ لَهُ ۥ مُوسَىٰ هَلۡ أَتَّبِعُكَ عَلَىٰٓ أَن تُعَلِّمَنِ مِمَّا عُلِّمۡتَ رُشۡدً۬ا (٦٦) قَالَ إِنَّكَ لَن تَسۡتَطِيعَ مَعِىَ صَبۡرً۬ا (٦٧) وَكَيۡفَ تَصۡبِرُ عَلَىٰ مَا لَمۡ تُحِطۡ بِهِۦ خُبۡرً۬ا (٦٨) قَالَ سَتَجِدُنِىٓ إِن شَآءَ ٱللَّهُ صَابِرً۬ا وَلَآ أَعۡصِى لَكَ أَمۡرً۬ا (٦٩) قَالَ فَإِنِ ٱتَّبَعۡتَنِى فَلَا تَسۡـَٔلۡنِى عَن شَىۡءٍ حَتَّىٰٓ أُحۡدِثَ لَكَ مِنۡهُ ذِكۡرً۬ا (٧٠) فَٱنطَلَقَا حَتَّىٰٓ إِذَا رَكِبَا فِى ٱلسَّفِينَةِ خَرَقَهَا‌ۖ قَالَ أَخَرَقۡتَہَا لِتُغۡرِقَ أَهۡلَهَا لَقَدۡ جِئۡتَ شَيۡـًٔا إِمۡرً۬ا (٧١) قَالَ أَلَمۡ أَقُلۡ إِنَّكَ لَن تَسۡتَطِيعَ مَعِىَ صَبۡرً۬ا (٧٢) قَالَ لَا تُؤَاخِذۡنِى بِمَا نَسِيتُ وَلَا تُرۡهِقۡنِى مِنۡ أَمۡرِى عُسۡرً۬ا (٧٣) فَٱنطَلَقَا حَتَّىٰٓ إِذَا لَقِيَا غُلَـٰمً۬ا فَقَتَلَهُ ۥ قَالَ أَقَتَلۡتَ نَفۡسً۬ا زَكِيَّةَۢ بِغَيۡرِ نَفۡسٍ۬ لَّقَدۡ جِئۡتَ شَيۡـًٔ۬ا نُّكۡرً۬ا (٧٤) ۞ قَالَ أَلَمۡ أَقُل لَّكَ إِنَّكَ لَن تَسۡتَطِيعَ مَعِىَ صَبۡرً۬ا (٧٥) قَالَ إِن سَأَلۡتُكَ عَن شَىۡءِۭ بَعۡدَهَا فَلَا تُصَـٰحِبۡنِى‌ۖ قَدۡ بَلَغۡتَ مِن لَّدُنِّى عُذۡرً۬ا (٧٦) فَٱنطَلَقَا حَتَّىٰٓ إِذَآ أَتَيَآ أَهۡلَ قَرۡيَةٍ ٱسۡتَطۡعَمَآ أَهۡلَهَا فَأَبَوۡاْ أَن يُضَيِّفُوهُمَا فَوَجَدَا فِيہَا جِدَارً۬ا يُرِيدُ أَن يَنقَضَّ فَأَقَامَهُ ۥ‌ۖ قَالَ لَوۡ شِئۡتَ لَتَّخَذۡتَ عَلَيۡهِ أَجۡرً۬ا (٧٧) قَالَ هَـٰذَا فِرَاقُ بَيۡنِى وَبَيۡنِكَ‌ۚ سَأُنَبِّئُكَ بِتَأۡوِيلِ مَا لَمۡ تَسۡتَطِع عَّلَيۡهِ صَبۡرًا (٧٨) أَمَّا ٱلسَّفِينَةُ فَكَانَتۡ لِمَسَـٰكِينَ يَعۡمَلُونَ فِى ٱلۡبَحۡرِ فَأَرَدتُّ أَنۡ أَعِيبَہَا وَكَانَ وَرَآءَهُم مَّلِكٌ۬ يَأۡخُذُ كُلَّ سَفِينَةٍ غَصۡبً۬ا (٧٩) وَأَمَّا ٱلۡغُلَـٰمُ فَكَانَ أَبَوَاهُ مُؤۡمِنَيۡنِ فَخَشِينَآ أَن يُرۡهِقَهُمَا طُغۡيَـٰنً۬ا وَڪُفۡرً۬ا (٨٠) فَأَرَدۡنَآ أَن يُبۡدِلَهُمَا رَبُّہُمَا خَيۡرً۬ا مِّنۡهُ زَكَوٰةً۬ وَأَقۡرَبَ رُحۡمً۬ا (٨١) وَأَمَّا ٱلۡجِدَارُ فَكَانَ لِغُلَـٰمَيۡنِ يَتِيمَيۡنِ فِى ٱلۡمَدِينَةِ وَكَانَ تَحۡتَهُ ۥ كَنزٌ۬ لَّهُمَا وَكَانَ أَبُوهُمَا صَـٰلِحً۬ا فَأَرَادَ رَبُّكَ أَن يَبۡلُغَآ أَشُدَّهُمَا وَيَسۡتَخۡرِجَا كَنزَهُمَا رَحۡمَةً۬ مِّن رَّبِّكَ‌ۚ وَمَا فَعَلۡتُهُ ۥ عَنۡ أَمۡرِى‌ۚ ذَٲلِكَ تَأۡوِيلُ مَا لَمۡ تَسۡطِع عَّلَيۡهِ صَبۡرً۬ا (٨٢)
موسیٰؑ نے ان کو (سلام کیا اور) ان سے فرمایا کہ میں آپ کے ساتھ رہ سکتا ہوں اس شرط سے کہ جو علم مفید آپ کو (منجانب الله) سکھلایا گیا ہےاس میں سے آپ مجھ کو بھی سکھلادیں ۔ (۶۶) ان بزرگ نے جواب دیا آپ سے میرے ساتھ رہ کر (میرے افعال پر) صبر نہ ہو سکے گا۔ (۶۷) اور (بھلا) ایسے امور پر آپ کیسے صبر کریں گے جو آپ کے احاطہ واقفیت سے باہر ہیں۔ (۶۸) موسیٰؑ نے فرمایا انشاء اللہ آپ مجھ کو صابر (یعنی ضابط) پاویں گے اور میں کسی بات میں آپ کے خلاف حکم نہ کروں گا۔ (۶۹) ان بزرگ نے فرمایا کہ (اچھا) اگر آپ میرے ساتھ رہنا چاہیں تو (اتنا خیال رہے کہ) مجھ سے کسی بات کی نسبت کچھ پوچھنا نہیں جب تک کہ اس کے متعلق خود ہی ابتداءً ذکر نہ کروں۔ (۷۰) پھر دونوں (کسی طرف ) چلے یہاں تک کہ جب دونوں کشتی میں سوار ہوئے تو ان بزرگ نے اس کشتی میں چھید کر دیا موسیٰؑ نے فرمایا آپ نے اس کشتی میں اس لیے چھید کیا ہوگا کہ اس کے بیٹھنے والوں کو غرق کر دیں آپ نے بڑی بھاری (یعنی خطرہ کی) بات کی۔ (۷۱) ان بزرگ نے کہا میں نے کہا نہیں تھا کہ آپ سے میرے ساتھ صبر نہ ہو سکے گا۔ (۷۲) موسیٰؑ نے فرمایا (کہ مجھ کو یاد نہ رہا تھا سو) آپ میری بھول چوک پرگرفت نہ کیجیئے اور میرے اس معاملہ میں مجھ پر زیادہ تنگی نہ ڈالیے۔ (۷۳) پھر دونوں (کشتی سے اتر کر آگے) چلے یہاں تک کہ جب ایک (کم سن) لڑکے سے ملے تو ان بزرگ نے اس کو مارڈالا موسیٰؑ (گھبرا کر) کہنے لگے کہ آپ نے ایک بے گناہ بچے کو مار ڈالا (اور وہ بھی) بے بدلے کسی جان کے بے شک آپ نے (یہ تو) بڑی بے جا حرکت کی۔ (۷۴) ان بزرگ نے فرمایا کہ کیا میں نے آپ سے نہیں کہاتھا کہ آپ سے میرے ساتھ صبر نہ ہو سکے گا۔ (۷۵) موسیٰؑ نے فرمایا کہ(خیر اب کے اور جانے دیجیئے) اگر اس مرتبہ کے بعد آپ سے کسی امر کے متعلق پوچھوں تو آپ مجھ کو اپنے ساتھ نہ رکھیئے گا بے شک آپ میری طرف سے عذر (کی) انتہا کو پہنچ چکے ہیں۔ (۷۶) پھر دونوں (آگے) چلے یہاں تک کہ جب ایک گاؤں والوں پر گزر ہوا تو وہاں سے کھانے کو مانگا (کہ ہم مہمان ہیں) سو انہو ں نے ان کی مہمانی کرنے سے انکار کر دیا اتنے میں ان کو وہاں ایک دیوار ملی جو گرا ہی چاہتی تھی تو ان بزرگ نے اس کو (ہاتھ کے اشارے سے) سیدھا کر دیا موسیٰؑ نے فرمایا کہ اگر آپ چاہتے تو اس (کام) پر کچھ اجرت ہی لے لیتے۔ (۷۷) ان بزرگ نے کہا کہ یہ وقت ہماری اور آپ کی علیحٰدگی کا ہے (جیسا کہ خود آپ نے شرط کی تھی) میں ان چیزوں کی حقیقت بتلائے دیتا ہوں جن پر آپ کو صبر نہ ہو سکا۔ (۷۸) وہ جو کشتی تھی سو چند آدمیوں کی تھی (اس کے ذریعہ سے) دریا میں محنت مزدوری کرتے تھے سو میں نے چاہا کہ اس میں عیب ڈال دوں اور (وجہ اس کی یہ تھی کہ) ان لوگوں سے آگے کی طرف ایک (ظالم) بادشاہ تھا جو ہر (اچھی) کشتی کو زبردستی پکڑ رہا تھا۔ (۷۹) اور رہا وہ لڑکا سو اس کے ماں باپ ایمان دار تھے سو ہم کو اندیشہ (یعنی تحقیق) ہوا کہ یہ ان دونوں پر سرکشی اور کفر کا اثر ڈال دے۔ (۸۰) پس ہم کو یہ منظور ہوا کہ بجائے اس کے ان کا پروردگار ان کو ایسی اولاد دے جو پاکیزگی (یعنی دین) میں اس سے بہتر ہو اور ماں باپ کے ساتھ محبت کرنے میں اس سے بڑھ کر ہو۔ (۸۱) اور رہی دیوار سو وہ دو یتیم لڑکوں کی تھی جو اس شہر میں (رہتے) ہیں اور اس دیوار کے نیچے ان کا کچھ مال مدفون تھا (جو ان کے ماں باپ سے میراث میں پہنچا ہے) اور ان کا باپ (جو مر گیا ہے وہ) ایک نیک آدمی تھا سو آپ کے رب نے اپنی مہربانی سے چاہا کہ وہ دونوں اپنی جوانی (کی عمر) کو پہنچ جاویں اور اپنا دفینہ نکال لیں اور (یہ سارے کام میں نے بالہام الہٰی کیے ہیں ان میں سے) کوئی کام میں نے اپنی رائے سے نہیں کیا لیجیئے یہ ہے حقیقت ان باتوں کی جن پر آپ سے صبر نہ ہو سکا ۔ (۸۲) 
Mûsa (Moses) said to him (Khidr) "May I follow you so that you teach me something of that knowledge (guidance and true path) which you have been taught (by Allâh)?" (66) He (Khidr) said: "Verily! You will not be able to have patience with me! (67) "And how can you have patience about a thing which you know not?" (68) Mûsa (Moses) said: "If Allâh wills, you will find me patient, and I will not disobey you in aught." (69) He (Khidr) said: "Then, if you follow me, ask me not about anything till I myself mention of it to you." (70) So they both proceeded, till, when they embarked the ship, he (Khidr) scuttled it. Mûsa (Moses) said: "Have you scuttled it in order to drown its people? Verily, you have committed a thing "Imr" (a Munkar - evil, bad, dreadful thing)." (71) He (Khidr) said: "Did I not tell you, that you would not be able to have patience with me?" (72) [Mûsa (Moses)] said: "Call me not to account for what I forgot[], and be not hard upon me for my affair (with you)." (73) Then they both proceeded, till they met a boy, he (Khidr) killed him. Mûsa (Moses) said: "Have you killed an innocent person who had killed none? Verily, you have committed a thing "Nukr" (a great Munkar - prohibited, evil, dreadful thing)!" (74) (Khidr) said: "Did I not tell you that you can have no patience with me?" (75) [Mûsa (Moses)] said: "If I ask you anything after this, keep me not in your company, you have received an excuse from me." (76) Then they both proceeded, till, when they came to the people of a town, they asked them for food, but they refused to entertain them. Then they found therein a wall about to collapse and he (Khidr) set it up straight. [Mûsa (Moses)] said: If you had wished, surely, you could have taken wages for it!" (77) (Khidr) said: "This is the parting between me and you, I will tell you the interpretation of (those) things over which you were unable to hold patience (78) "As for the ship, it belonged to Masâkîn (poor people) working in the sea. So I wished to make a defective damage in it, as there was a king behind them who seized every ship by force. (79) "And as for the boy, his parents were believers, and we feared lest he should oppress them by rebellion and disbelief. (80) "So we intended that their Lord should change him for them for one better in righteousness and nearer to mercy. (81) "And as for the wall, it belonged to two orphan boys in the town; and there was under it a treasure belonging to them; and their father was a righteous man, and your Lord intended that they should attain their age of full strength and take out their treasure as a mercy from your Lord. And I did them not of my own accord. That is the interpretation of those (things) over which you could not hold patience." (82)

Comments

Popular posts from this blog

Is Education is the Best Service?

Life Lessons - Andrew Carnegie, “I can keep my mind focused on something for five minutes at a stretch.”

How Can One Insult Me